حوصلے کی کمی
میں ایک اچھا طالبعلم ہوں، سب میری تعریف کرتے ہیں مگر مجھے خود پر کبھی کبھی غصہ آتا ہے کیوں کہ میں صحیح بات کہنے سے ڈرتا ہوں۔ اگر دو لڑکوں میں کسی بات پر بحث ہو رہی ہو گی اور مجھے معلوم ہو گا کہ ایک صحیح ہے مگر وہ کسی اعتبار سے دوسرے سے جو غلط بات پر اٹل ہو رہا ہو گا، کمزور ہے تو میں خود بخود طاقتور کی طرف سے بولنے لگتا ہوں۔ بعد میں میرا ضمیر ملامت کرتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ پھر پڑھنے میں دل نہیں لگتا اور یہی باتیں دماغ میں آتی رہتی ہیں۔(خاور شاہد....بلوچستان)
جواب:۔تربیت کا اولین خاصہ حوصلہ مندی ہے۔ تعلیم انسان کے کردار میں جرات اور حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ صحیح اور غلط کا شعور عطا ہوتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہے۔ اب شعوری طور پر یہ کوشش کریں کہ غلط بات پر ساتھ نہ دیا جائے۔ اگر صحیح بات پر کمزور کی حمایت کی ہمت نہیں تو غلط بات پر طاقتور کا بھی ساتھ نہ دیا جائے۔ ایسے لڑکوں کی صحبت میں نہ بیٹھیں جو وقت ضائع کرتے ہیں۔ پڑھتے وقت خود سے کہیں مجھے کوئی فضول بات اپنے دماغ میں نہیں لانی ہے۔
ہم سفر
میرا چھوٹا بھائی میٹرک میں پڑھتا ہے۔ بڑا بھائی غلط لڑکوں کیساتھ گھر چھوڑ چکا ہے۔ والد فالج کے مریض ہیں۔ میں ایک نجی ادارے میں اچھی جاب کرتی ہوں۔ وہاں ایک لڑکا مجھے پسند کرنے لگا مگر میں نے شادی سے انکار کر دیا کیونکہ گھر کی ذمہ داری مجھ پر ہی ہے۔ اب حال ہی میں میرا ایک رشتہ آیا ہے۔ والدہ نے بات پکی کر دی کیونکہ لڑکا بہت اچھا ہے۔ میں نے انکار کیا تو والدہ ناراض ہو گئیں کہ گھر چلتا ہی رہے گا تم اپنی زندگی خراب نہ کرو۔ میں عجیب سی کشمکش میں ہوں۔(امبر.... کراچی)
جواب:۔ آپ کو والدہ کی بات مان لینی چاہئے، کچھ عرصے کی بات ہے، بھائی والدین کا سہارا بن جائے گا۔ یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور مزیدنئی
ذمہ داریوں کو انجام دینے کا موقع مل رہا ہے۔ ہم سفر اچھا مل جائے گا تو زندگی میں خوشیاں آجائیں گی۔
نئے حالات کے مطابق
میں نے منگنی یا شادی میں کبھی کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی پھر بھی والد نے اپنے کاروبار کے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے ایک بہت ہی امیر آدمی کی بیٹی سے میری منگنی کر دی جو آزاد خیال لڑکی تھی۔ ہر وقت مجھ سے فون پر بات کرتی۔ ملنے کی خواہش ظاہر کرتی تو میں ملنے چلا جاتا۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا والد اپنے دوست سے بہتر تعلقات نہ رکھ سکے۔ غصہ منگنی ٹوٹنے پر اترا۔ یہ رشتہ کیا ٹوٹا میں بھی خود کو ٹھیک نہ رکھ پایا۔ اس نے تو مجھ سے ملنا چھوڑ دیا۔ فون بند کر دیا مگر میں اب گھنٹوں اس سے ملنے کیلئے سڑکوں پر گھومتا ہوں۔ کسی سے کچھ نہیں کہتا لیکن میرا دل ودماغ قابو میں نہیں رہا۔ عجیب سی وحشت ہے۔ گھر والے بھی میری طرف سے بے حد فکر مند ہیں۔(فہد خالد....کراچی)
جواب:۔ آپ اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ جو کچھ کر رہے ہیں ٹھیک نہیں ہے۔ لہٰذا اب اپنی وحشت پر قابو پائیں۔ غلطی اپنی ہو یا بڑوں کی۔ کبھی کبھی انسان ٹوٹ جاتا ہے اورپھر اس کے لئے اپنے دکھ کو برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اپنے حالات اور والد کے مسائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں، آپ کے سامنے لڑکی کی مثال ہے کہ اس نے کتنی جلدی نئے حالات کے مطابق آپ سے نہ ملنے کا فیصلہ کر لیا۔
مشکل وقت گزر گیا
میں ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا کہ والد دنیا سے چلے گئے۔ والدہ کی دوسری شادی کر دی گئی۔ ان کا ایک بیٹا اور ہے۔ سوتیلے والد اپنے بیٹے کو طرح طرح کی چیزیں اور تحائف لاکر دیتے ہیں۔ میں خاموش دیکھتا ہوں اگر وہ میرے سگے باپ ہوتے تو ایسا نہ کرتے۔ اب میں اس قدر اکیلا ہوں کہ بتا نہیں سکتا۔ بیمار بھی رہتا ہوں مگر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ والد تو بہت ہی سخت باتیں کہہ ڈالتے ہیں۔ والدہ بھی ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں تمہاری عمر بیمار ہونے کی نہیں کام کرو اور سکون سے رہو۔ میں انہیں کیسے بتائوں کہ سکون تو انہوں نے ہی ختم کیا ہے نہ دوسری شادی کرتیں، نہ میں بیمار ہوتا۔(اسامہ.... حیدرآباد)
جواب: ۔والدہ کی کچھ مجبوریاں ہوں گی جو انہوں نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا۔ اپنی زندگی میں انتشار کا سبب دوسروں کی غلطیوں میں نہ تلاش کریں۔ اس طرح غم اور دکھ بڑھے گا۔ آپ کا مشکل وقت گزر چکا ہے۔ اب خواہش پوری کروانے کی عمر نہیں رہی۔ والد کی اپنی مرضی ہے، اگر ان کا سلوک آپ کے ساتھ ٹھیک نہیں تو آپ صبر کریں۔ اب اپنی دنیا خود بنانے کا وقت آچکا ہے۔ اچھی تعلیم اورباعزت پیشہ اپنا کر محرومیوں سے دور ہونے کی کوشش کیجئے۔
تکلیف دہ احساسات
میری عمر کم لگتی ہے۔ شوہر بڑی عمر کے نظر آتے ہیں۔ ہمارا جوان بیٹا ہے۔ حال ہی میں ہم لوگ ایک نئے علاقے میں منتقل ہوئے ہیں۔ وہاں سب کہتے ہیں کہ یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔ میں سوتیلی ماں ہوں۔ اب اس میں میرا کیا قصور کہ لوگوں کی باتیں سنوں۔ ہم نے بیٹے کو ایک فیکٹری میں ملازمت دلوا دی ہے مگر کام کافی مشکل ہے۔ اس کے ہاتھ میں فریکچر ہو گیاہے ۔ اب تو لوگ اور باتیں بنانے لگے ہیں۔ ان سب سے پریشان ہو کر دل چاہتا ہے کہ یہ گھر بھی چھوڑ دوں کیونکہ جن تکلیف دہ احساسات سے وقت گزار رہی ہوں وہ میں ہی جانتی ہوں۔(فرحانہ.... ملیر)
جواب:۔سب کی باتیں آپ تک کیسے پہنچیں ؟یقینا کچھ بے تکلف لوگ ہونگے جنہوں نے آپ کو تکلیف دہ باتیں بتائیں۔ نئے علاقے میں لوگوں سے احتیاط ملنا چاہئے۔ آپ سگی ماں ہیں۔ یہ بات ثابت کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی لوگوں کی باتوں کی پروا کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھے کیا جو بیٹے کو کام دلوا دیا۔ اب اسے کسی اچھے کام کی تربیت دلوائیں، پھر ملازمت کروائیں تاکہ وہ اپنے پیشے میں مہارت رکھتا ہو۔آپ مطمئن رہیں گی تو باتیں بنانے والے لوگ خود ہی خاموش ہو جائیں گے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 777
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں